بدن کی قبر میں خوابوں کی لاش ہے میں ہوں
ؔاعجازالحق شہاب
ؔاعجازالحق شہاب
بدن کی قبر میں خوابوں کی لاش ہے میں ہوں
قدم قدم پہ ہی فکرِ معاش ہے میں ہوں
زمانے بھر میں تو یہ راز فاش ہے میں ہوں
مگر مجھے تو میری ہی تلاش ہے میں ہوں
ہر ایک ضرب نئے تجرِبے اُکیرے ہے
حیات ہے کہ کوئی سنگ تراش ہے میں ہوں
لگیں گی بولیاں جنّت کی اب سرِ بازار
بکے گی خلدِ بریں اُف وناش ہے میں ہوں
جو وقتِ ماضی میں گزرا ہے کاش رُک جاتا
لبوں پہ آج فقط لفظِ کاش ہے میں ہوں
ہر اِک قدم پہ نئی حسرتیں پنپتی ہیں
نہ جانے کیسا یہ اِک موہ پاش ہے میں ہوں
کیوں لمحہ لمحہ ہی بڑھتی ہی جا رہی ہے شہابؔ
یہ گزرے وقت کی کیسی خراش ہے میں ہوں
آج سن لی ہے مرے احباب نے میری غزل
آج اپنی منزل مقصود پر پہنچی غزل
جب سنائی آپ نے تو با ادب سن لی غزل
اور جب کوشاں ہوا تو بے دھڑک کہہ دی غزل
یہ لب و رخسار یہ چہرا تیرا پر نور سا
تجھ کو کیا دیکھا لگا جیسے کوئی دیکھی غزل
کل جو دیکھی تھی غزل تو دل کی دھڑکن رک گئی
آج جو دیکھی غزل تو بن کے دل دھڑکی غزل
زلف اولی چشم ثانی قافیہ رخ لب ردیف
رب نے تم کو ہے تراشا یا کوئی لکھی غزل
قافیہ روٹھا ہوا تھا منہ چڑھاتی تھی ردیف
تم کیا روٹھے رات بھر تھی رات بھر روٹھی غزل
تحت میں جب بھی پڑھی تو بن کے نکلی انقلاب
جب ترنم میں پڑھی تو جھوم اٹھی میری غزل
ہیں یہ اصناف ادب جان سخن داں شاعری
نظم میری سانس ہے اور زندگی میری غزل
کہہ اٹھے ہیں سب سخنور اہل محفل یہ شہابؔ
جو تیرے لب سے ہوئی آخر وہی ٹھہری غزل
ایک اک پل میں سنو سینکڑوں غم کاٹتے ہیں
زندگی کٹتی کہاں ہے اسے ہم کاٹتے ہیں
مل کے رہتے ہیں وطن میں سبھی ہمسائے مگر
اس محبت کو سیاست کے ادھم کاٹتے ہیں
گلشن دہر کے ہر گل سے مہکتا گلشن
مل کے ہم آئیے نفرت کے الم کاٹتے ہیں
عالم ہجر میں ہیں وصل کی یادوں کے چراغ
انہیں یادوں سے ترے ہجر کا غم کاٹتے ہیں
ہم نے جو کی تھی وفا وہ ہی وفا جرم ہوئی
دیکھیے اس کی سزا کتنے جنم کاٹتے ہیں
پاک رکھا ہے تخیل کو عبادت کی طرح
اتنی جدت سے تبھی شعر کا ضم کاٹتے ہیں
عمر گزری ہے شہابؔ اپنی جفاؤں کے تئیں
دل کو رہ رہ کے جفاؤں کے ستم کاٹتے ہیں
اک آفتاب کا رنگ ایک ماہتاب کا رنگ
ملا کے ڈھالا گیا ہے ترے شباب کا رنگ
نمایاں جسم ہے اور شوخ ہے نقاب کا رنگ
بدل رہا ہے زمانے میں اب حجاب کا رنگ
ملی نظر جو مری دفعتاً سر محفل
حیا سے رخ پہ تیرے آ گیا گلاب کا رنگ
نکل پڑے ہیں جو جگنو لئے ہوئے قندیل
اتر گیا ہے تبھی سے اس آفتاب کا رنگ
سنا ہے تخت لرزتے ہیں تاج ہلتے ہیں
جو ہم غزل میں ملاتے ہیں انقلاب کا رنگ
سلیقہ زیست کو جینے کا ہم نے سیکھا ہے
سروں پہ جب سے چڑھا ہے تیری کتاب کا رنگ
وہ پہلے پہلے سے تیور ہوا ہوئے دیکھو
اڑا اڑا سا ہے کچھ دن سے اب جناب کا رنگ
کسی کے سر پہ چڑھا رنگ میرؔ و غالبؔ کا
کسی کے سر پہ چڑھے گا کبھی شہابؔ کا رنگ
خوف سا پھر لبوں پہ طاری ہے
اک عجب کیفیت ہماری ہے
آؤ بدلیں نظام گلشن ہم
کچھ ہماری بھی ذمہ داری ہے
روشنی حق کے ایک جگنو کی
سینکڑوں ظلمتوں پہ بھاری ہے
آپ کا تو کوئی جواب نہیں
آئیے اب ہماری باری ہے
جشن تدفین آرزو وصال
اور سانسوں کا رقص جاری ہے
وصل کا ایک قیمتی لمحہ
ہجر کی مدتوں پہ بھاری ہے
وحشت عشق میں سنو ہم نے
دن سمیٹا ہے شب اتاری ہے
قہقہوں کا نگر تمہیں سونپا
درد پر سلطنت ہماری ہے
غلطیاں آپ سے نہیں ہوتیں
کیا فرشتوں سے رشتہ داری ہے
آپ سنئے شہابؔ کو بھی کبھی
گویا الہام ربط جاری ہے
جسم خاموش سی تصویر ہوا جاتا ہے
اب ترا ہجر لے تعمیر ہوا جاتا ہے
ربط جب ایک کی تقدیر سے ہو جائے تو پھر
کیا کسی اور کی تقدیر ہوا جاتا ہے
رخ اکیرے ہوئے ماضی کی کہانی کے نقوش
اب غم ہجر کی تشہیر ہوا جاتا ہے
عکس ابھرے شب فرقت میں جو دیواروں پر
وقت میرے لئے شمشیر ہوا جاتا ہے
تو بھی اب دیکھ لے اس صبر کے دامن کو سمیٹ
ضبط میرا بھی اب آخیر ہوا جاتا ہے
اس نے جانے کا کہا میں نے بھی روکا ہی نہیں
کیا کبھی پاؤں کی زنجیر ہوا جاتا ہے
ہائے غزلیں تری دل چیر کے رکھ دیں گی شہابؔ
چند عرصے میں کہاں میرؔ ہوا جاتا ہے
پہلے بنتی ہی نہ تھی بات سو اب بنتی ہے
آج کل ان کے تصور سے غضب بنتی ہے
چلئے چل کر کہیں ڈھونڈے کوئی اجڑی ہوئی رات
اپنی ان چاند ستاروں سے تو کب بنتی ہے
نفس جب روح پہ حاوی ہو تو پھر وحشت میں
تشنگی دیکھیے قربت کا سبب بنتی ہے
سرمئی شام میں سورج کا لہو مل جائے
تب کہیں جا کے مری جان یہ شب بنتی ہے
پھر سنبھالے نہ سنبھلتی ہے اگر بگڑے تو
اور بگاڑے نہ بگڑتی ہے کہ جب بنتی ہے
پہلے پہلے تو کسی کھیل سی لگتی ہے مگر
سر پہ چڑھ جائے محبت تو طلب بنتی ہے
عاشقی حد سے گزرتی ہے تبھی جا کے شہابؔ
قیس و فرہاد کا رانجھے کا لقب بنتی ہے
دل میں پیغام محبت سا اتارا جاؤں
اس سے پہلے کہ کسی بھیڑ میں مارا جاؤں
وصل کی چاہ میں یہ ہجر کمایا میں نے
ہجر کو خرچ کروں زیست سے ہارا جاؤں
روٹھی تقدیر ہوں تو مجھ کو منایا جائے
اور گر بگڑا مقدر ہوں سنوارا جاؤں
ایک عرصے سے خلاؤں سے صدا آتی ہے
ایسا لگتا ہے مجھے اس نے پکارا جاؤں
میں نہیں ان میں کہ جو خود کو کسی پر تھوپیں
بھر گیا مجھ سے اگر دل یہ تمہارا جاؤں
اب یہاں پہلے سی جذبات میں شدت نہ رہی
اب یہاں ہوگا نہیں اپنا گزارا جاؤں
دے خدا کاش اسے دل کی مسیحائی شہابؔ
اور صحیفوں سا میں پھر اس پہ اتارا جاؤں
نئے مسیحا بنیں گے نئے لقب ہوں گے
ہمارے ملک میں پھر انتخاب اب ہوں گے
سنا ہے پھر سے نئے خواب بیچے جائیں گے
سنا ہے پھر سے نئے جملے زیر لب ہوں گے
جو پانچ سال کبھی یاد تک نہیں آئے
وہی غریب وہ لاچار پھر طلب ہوں گے
لو پھر سے مندر و مسجد کا جن نکل آیا
لو پھر سے رہنما اب خوں کے تشنہ لب ہوں گے
چمن میں بو تو رہے ہو تم انتشار کے بیج
اس انتشار کا لیکن شکار سب ہوں گے
ہمارے ملک کا آئین ہم سے کہتا ہے
اب انقلاب فقط ووٹ کے سبب ہوں گے
شہابؔ اپنے ہی جن سے نہ فیضیاب ہوئے
تمہارے اور مرے غم گسار کب ہوں گے
آگے جو ہوگا وہ ہوگا خیر کر آیا ہوں میں
جو زبر بنتے تھے ان کو زیر کر آیا ہوں میں
ہاں بہت مشکل تو ہے لیکن یہ نا ممکن نہیں
درد کی طغیانیوں میں تیر کر آیا ہوں میں
مر گیا ہے کوئی مجھ میں اس پہ مٹی ڈالیے
اپنی ساری خواہشوں کو ڈھیر کر آیا ہوں میں
درد وحشت رنج و غم تنہائیاں شام الم
جو مجھے گھیرے تھیں ان کو گھیر کر آیا ہوں میں
وہ جسے پانے کی حسرت دل میں مدت سے رہی
اس کے ہی خاطر اسے اب غیر کر آیا ہوں میں
کام یہ آساں نہیں اس میں کلیجہ چاہئے
عشق کی وادی سے ہاں رخ پھیر کر آیا ہوں میں
جانے کس کی دید کی حسرت لئے دل میں شہابؔ
دشت و صحرا سے بھی آگے سیر کر آیا ہوں میں