جتنے عجیب منظر دکھتے ہیں ہم کو اکثر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے ہیں منظر
پھولوں کا منہ دھلائے شبنم سے جب سویرا
پنچھی سنائیں پڑھ کر قرآن اور بھجن کو
کلیاں کھلیں چمن میں گل مہکے انجمن میں
سورج کی انگلی پکڑے کرنیں چلیں چمن کو
تب وقت کا یہ پہیا کتنا لگے ہے سندر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے ہیں منظر
ڈھکنے لگے جو پانی ساحل کو دھیرے دھیرے
پنچھی بھی لوٹ جائیں جس وقت اپنے ون کو
سورج لگائے سرخی ہونٹوں پہ شام کے جب
تارے سجائیں آ کر جب رات کی دلہن کو
ہم کو بھی کتنا پیارا لگتا ہے تب وہ بستر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے منظر
بستر پہ مہنگے مہنگے نہ نیند ہو میسر
اپنے سکوں کی خاطر وارے دھنی جو دھن کو
اور آسمان اوڑھے فٹ پاتھ پہ ہو سویا
چومیں ہوائیں آ کر مزدور کے بدن کو
انصاف تب خدا کا کتنا لگے ہے بہتر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے ہیں منظر
روشن خیال لے کر جب جھونپڑے میں بچی
بیٹھی ہو چیتھڑوں سے ڈھک کر کے اپنے تن کو
اور کچھ حسین فتنے کرتے پھریں نمائش
فیشن کے نام پر وہ دکھلائیں ہیں بدن کو
تب وقت کے ستم پر سب دیکھتے ہیں ہنس کر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے ہیں منظر
جب کچھ امیر بچے کھیلے ہیں مرسڈیز سے
کتنے لگے ہیں پیارے وہ دور سے نین کو
اور آنسوؤں کے دریا میں کچھ غریب بچے
اک اک کھلونے خاطر مارے ہیں اپنے من کو
پتھر پگھل پڑیں تب اس بات کو تو سن کر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے ہیں منظر
جب اک نڈر سپاہی اپنے وطن کی خاطر
سرحد پہ جان دے کر پورا کرے وچن کو
اور کچھ سیاسی مہرے بک جائیں تھوڑے دھن سے
دشمن سے مل کے توڑیں خود اپنے ہی وطن کو
تب دل میں بس جنوں کا اٹھتا ہے اک بونڈر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے ہیں منظر
جب رہبروں کی ٹولی اپنے بھلے کی خاطر
ہاتھوں سے پھونکتی ہو خود اپنے ہی چمن کو
مذہب کے نام پر یوں ہم کو لڑا لڑا کر
دوزخ بنا رہی ہو جنت نشاں وطن کو
دل پہ شہابؔ کتنے چبھتے ہیں دیکھو نشتر
سب کھیل وقت کا ہے سب وقت کے ہیں منظر
ہجر کی اندھی راتیں
کنپکنپاتا سا بدن برف سی ٹھنڈی راتیں
یہ قیامت سی کئی مدتوں لمبی راتیں
یہ سلگتے ہوئے جذبات میں دہکی راتیں
نیم سی کڑوی کریلے سے کسیلی راتیں
کتنی ظالم ہیں یہ تنہائی میں ڈوبی راتیں
تم پہ اتری ہیں کبھی ہجر کی اندھی راتیں
تم پہ اتری ہی نہیں ہجر کی اندھی راتیں
محفلیں چپ ہیں کبھی چیختی خاموشی ہے
ہوش میں رہ کے بھی اک عالم مدہوشی ہے
یاد کے ہیں کبھی نشتر کبھی سرگوشی ہے
ہائے پھیلی سی حواسوں پہ بھی بے ہوشی ہے
ہجر کے خوف سے ہائے ڈری سہمی راتیں
تم پہ اتری ہیں کبھی ہجر کی اندھی راتیں
تم پہ اتری ہی نہیں ہجر کی اندھی راتیں
ہے بہاراں میں بھی بس ایک خزاں کا موسم
جان لینے پہ اتارو ہے مری وحشت غم
اشک دکھتے ہیں لہو سے بھلا کیسا ہے ستم
تم تو کیا جانو مرے وحشت دل کا عالم
بارش اشک سے بھیگی ہوئی گیلی راتیں
تم پہ اتری ہیں کبھی ہجر کی اندھی راتیں
تم پہ اتری ہی نہیں ہجر کی اندھی راتیں
ایک وہ وقت تھا گلشن میں بہار آئی تھی
آرزو وقت کے گھوڑے پہ سوار آئی تھی
پیراہن غم کا خوشی پل میں اتار آئی تھی
اب یہ لگتا ہے جو آئی تھی ادھار آئی تھی
لمحہ لمحہ مجھے ناگن سی یہ ڈستی راتیں
تم پہ اتری ہیں کبھی ہجر کی اندھی راتیں
تم پہ اتری ہی نہیں ہجر کی اندھی راتیں
ایک یہ وقت ہے بس عالم تنہائی ہے
گلشن دل پہ فقط غم کی گھٹا چھائی ہے
ہائے جذبات کی میت پہ پذیرائی ہے
کیا یہی میں نے وفاؤں کی جزا پائی ہے
کچھ بھی سنتی ہی نہیں ہائے یہ بیری راتیں
تم پہ اتری ہیں کبھی ہجر کی اندھی راتیں
تم پہ اتری ہی نہیں ہجر کی اندھی راتیں
زندگی کے سیاہ کمرے میں
بیتی یادوں کے چند جگنو ہیں
جو مسلسل تسلیاں دے کر
مجھ کو سمجھا رہے ہیں برسوں سے
صرف پانا ہی شرط عشق نہیں
عشق تو وہ عظیم مرکز ہے
جس میں ہر شے سے پیار ہوتا ہے
جس میں کھونا بھی اک عبادت ہے
اور جب جب یہ بات سن کر کے
میں ذرا بھی اداس ہوتا ہوں
تو مری کوٹھری کا ہر کونا
ٹکٹکی سا لگائے دیکھے ہے
گویا مجھ سے وہ کہہ رہا ہو یہ
یاد ماضی عذاب ہے لیکن
وقت تنہائی یاد کے جگنو
تجھ کو یہ روشنائی دیتے ہیں
مصلحت یہ ہی در حقیقت ہے
جو بھی ہے رب کی بس عنایت ہے
میں بھی کچھ متفق ہوں اب ان سے
وقت تنہا سیاہ کمرے میں
یاد ماضی کی روشنی کے سبب
میں یہ تنہائی جھیل سکتا ہوں
اپنے اشکوں سے کھیل سکتا ہوں
اور ان سب تمام باتوں سے
اب نتیجہ یہی نکلتا ہے
یاد ماضی بھلے عذاب سہی
یاد ماضی خدا کی رحمت ہے
یاد ماضی خدا کی رحمت ہے